تحریر: مولانا امداد علی گھلو
حوزہ نیوز ایجنسی| حزب اللہ لبنان اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی طے پانے کے فوراً بعد، شام کے شہر حلب پر تکفیری گروہ "تحریر الشام" کی قیادت میں ایک بڑا حملہ شروع ہوا۔ اس حملے میں دیگر مسلح گروہوں نے بھی حصہ لیا، جیسے "القوّة المشترکہ"، "الجبهة الشامیہ"، اور "احرار الشام" وغیرہ جنہیں ترکی کی فوجی مدد بھی حاصل ہے، یہ واقعہ نہ صرف ایک عسکری کاروائی ہے بلکہ خطے میں جاری سامراجی و صہیونی منصوبے کی ایک کڑی ہے، جس کا مقصد مقاومتِ اسلامی کو کمزور کرنا اور اسرائیل کے خلاف متحدہ مقاومتی محاذ کو انتشار کا شکار کرنا ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ ترکی اس حملے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے، جو اسرائیل کے مفادات کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ اسرائیل بخوبی جانتا ہے کہ لبنان میں جنگ بندی کے دوران، اگر شام میں سکون برقرار رہا تو حزب اللہ اپنے وسائل کو دوبارہ مجتمع کر کے اپنی دفاعی اور عسکری پوزیشن کو مضبوط بنا سکتی ہے۔ شام، جو ایران اور مقاومت کا مضبوط اتحادی ہے، اسرائیل کے لیے ایک دائمی خطرہ ہے۔ دوسری طرف، تکفیری گروہوں کی طاقت میں اضافہ اسرائیل کے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ یہ گروہ نہ صرف اسرائیل کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہیں بلکہ محور مقاومت کو داخلی جنگوں میں الجھا کر کمزور کر سکتے ہیں۔
یہ ایک قابل غور امر ہے کہ یہ تکفیری گروہ، جو اسلام کے نام پر لڑنے کا دعویٰ کرتے ہیں، اسرائیل کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرتے۔ پچھلے ایک سال میں، جب اسرائیل فلسطین میں بے گناہ مسلمانوں پر مظالم ڈھا رہا تھا، ان گروہوں نے نہ تو اسرائیل کے خلاف کوئی اتحاد کیا اور نہ ہی کوئی کاروائی۔ اس کے برعکس، انہوں نے فلسطینی مقاومت کے خلاف تکفیری فتوے دیے اور مظالم پر خوشیاں منائیں۔ یہ عمل ان کے حقیقی مقاصد کو بے نقاب کرتا ہے کہ وہ اسلام کے بجائے اسرائیلی مفادات کے لیے کام کر رہے ہیں۔
سامراجی و استعماری طاقتوں نے ان گروہوں کو ایک شطرنج کے مہروں کی طرح استعمال کیا ہے اور یہ حملہ اسی سازش کا حصہ ہے۔ یہ طاقتیں چاہتی ہیں کہ شام میں جنگ کا دائرہ وسیع ہو تاکہ بشار الاسد کی حکومت، جو اسرائیل کے لیے ایک خطرہ اور ایران کی حلیف ہے، ختم ہو جائے۔ اس کے بعد شام میں ایک ایسی حکومت قائم ہو جو اسرائیل کے لیے سازگار ہو اور محور مقاومت کو کمزور کر دے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اس حملے کے پیچھے اسرائیل کی سوچ کا وہی پرانا حربہ کارفرما ہے: "تقسیم کرو اور حکمرانی کرو"۔ اسرائیل نے تحریر الشام جیسے گروہوں کو استعمال کر کے محور مقاومت کو کئی محاذوں پر مصروف رکھنے کی کوشش کی ہے تاکہ حزب اللہ، ایران، اور ان کے اتحادی اسرائیل کے خلاف منظم حکمت عملی نہ بنا سکیں۔
حلب پر یہ حملہ، اسرائیل کی طرف سے مقاومت کے خلاف ایک پراکسی جنگ ہے۔ اگر تحریر الشام یا ان کے اتحادیوں کے حملے اسرائیل کے مفادات کے خلاف ہوتے، تو سامراجی طاقتیں یقیناً ان گروہوں پر فضائی حملے کر کے ان کی پیش قدمی کو روک دیتیں؛ لیکن اس کے برعکس، انہوں نے ان گروہوں کو ترکی کی حمایت فراہم کر کے شام میں خانہ جنگی کو ہوا دی ہے۔ اس سے نہ صرف بشار الاسد کی حکومت کو کمزور کیا جا رہا ہے بلکہ ایران کے لیے بھی خطے میں اپنی پوزیشن کو برقرار رکھنے کیلئے مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں۔
اس صورتحال کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ حلب پر حملہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا تاکہ حزب اللہ لبنان، جو اسرائیل کے خلاف ایک بڑا خطرہ ہے، اپنی توجہ شام کے محاذ کی طرف مبذول کرے۔ اسرائیل کی اسٹریٹیجی یہ ہے کہ حزب اللہ کو اپنے ارد گرد کی جنگوں میں الجھا کر اس کی قوّت کو منتشر کیا جائے۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ تحریر الشام کا حملہ، دراصل اسرائیل کا حملہ ہے جو سامراجی طاقتوں کی منصوبہ بندی اور ترکی کی عملی معاونت سے انجام پایا۔ یہ تمام اقدامات اسرائیل کے اس دیرینہ خواب کی تکمیل کے لیے کیے جا رہے ہیں کہ مقاومت کو خطے سے ختم کر کے ایک ایسا مشرق وسطیٰ تشکیل دیا جائے جہاں اسرائیل بلاخوف و خطر اپنے عزائم کو پورا کر سکے۔
یہ حملہ مسلمانوں کو یہ سمجھنے پر مجبور کرتا ہے کہ ان کے حقیقی دشمن وہی قوّتیں ہیں جو تکفیری گروہوں کو اپنی مہرہ سازی کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ امت مسلمہ کے اتحاد اور محور مقاومت کی استقامت ہی وہ واحد راستے ہیں جن کے ذریعے اس سازش کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔
اس نازک صورتحال میں ضروری ہے کہ اسلامی دنیا اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی سازشوں کو پہچانے اور مقاومت کے پیغام کو مزید مستحکم کرے۔ اگر محور مقاومت اس وقت اپنے اتحاد اور حکمت عملی کو برقرار رکھے تو حلب پر ہونے والا یہ حملہ بھی، صہیونی منصوبے کی ایک اور شکست بن سکتا ہے۔
اس تمام صورتحال کا ایک اور پہلو خطے میں ترکی کے کردار کے حوالے سے بھی نہایت غور طلب ہے۔ ترکی، جو بظاہر اسلامی دنیا کے مسائل کے حل کا دعویدار ہے، عملی طور پر وہ اقدامات کر رہا ہے جو اسرائیل اور سامراجی طاقتوں کے مفادات کے عین مطابق ہیں۔ حلب پر حالیہ حملے میں ترکی کی فوجی مدد اور تحریر الشام جیسے گروہوں کو پشت پناہی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ ترکی اپنی خارجہ پالیسی کو صرف اپنے جیوپولیٹیکل اور معاشی مفادات تک محدود رکھتا ہے، چاہے اس کے نتائج خطے کی سلامتی کے لیے کتنے ہی تباہ کن کیوں نہ ہوں۔
مزید یہ کہ، ترکی کے اس طرز عمل نے واضح کر دیا ہے کہ اس کی ترجیحات فلسطین یا امت مسلمہ کی حمایت نہیں بلکہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانا ہے۔ یہ رویہ اسلامی دنیا کے اندرونی اتحاد کو مزید کمزور کر رہا ہے اور اسرائیل جیسے دشمن کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کا موقع فراہم کر رہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترکی، چاہے اسرائیل کے ساتھ باضابطہ طور پر جنگ میں شامل نہ ہو؛ لیکن اپنی پالیسیوں کے ذریعے بالواسطہ طور پر صہیونی ریاست کی خدمت کر رہا ہے۔
یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ تکفیری گروہوں کو جو جدید ہتھیار اور مالی وسائل فراہم کیے جا رہے ہیں، وہ صرف مقاومت کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ اگر ان وسائل کو واقعی اسرائیل کے خلاف استعمال کیا جاتا، تو آج فلسطین کی صورتحال مختلف ہوتی؛ لیکن یہاں یہ بات عیاں ہے کہ ان گروہوں کا اصل ہدف نہ اسرائیل ہے اور نہ ہی وہ مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں ہیں؛ بلکہ یہ صرف صہیونی منصوبوں کو تقویت دینے کے لیے سرگرم ہیں۔
لہذا، امت مسلمہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان گروہوں اور ان کے پشت پناہوں کی حقیقت کو سمجھے اور مقاومت کی حمایت میں ایک مضبوط اور مؤثر حکمت عملی تشکیل دے۔ یہ وقت تقیسم اور انتشار کا نہیں بلکہ اتحاد اور یکجہتی کا ہے۔ حزب اللہ اور محور مقاومت کی کامیابیاں اس بات کی دلیل ہیں کہ اگر امت مسلمہ متحد ہو تو صہیونی عزائم کو شکست دی جا سکتی ہے۔
یہ وقت ہے کہ امت مسلمہ، اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے خلاف اپنے موقف کو واضح کرے اور حلب جیسے حملوں کو روکنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے، کیونکہ یہ حملے درحقیقت خطے کی آزادی اور خودمختاری پر ایک حملہ ہیں۔